حلقہ ارباب ذوق (حاذ) گلگت۔۔۔۔۔۔۔۔ایک تعارف
جمشید خان دُکھی۔
گلگت کے شعرا ء و ادباء ایک عرصے سے علاقے میں علم و ادب کے فروغ کے لئے ایک فعال ادبی تنظیم کے قیام کا خواب دیکھ رہے تھے۔ یہ خواب گلگت میں متعین ایجوکیشن کور کے میجر غضنفر عباس قیصر فاروقی کی کوششوں سے 1987 ء میں شرمندہئ تعبیر ہوا، اور حلقہءِ اربابِ ذوق (حاذ) گلگت وجود میں آیا۔ اس کے پیچھے میجر غضنفر عباس قیصر فاروقی نامور قلمکار او ر معروف شاعر بھی تھے، کا شاعر انہ ذوق و شوق کار فرما تھا۔ حاز سے وابستہ احباب نے اب تک محض اس لئے حلقہءِ اربابِ ذوق گلگت کی رجسٹریشن نہیں کرائی ہے کہ اس طرح ان پر حکومتی ترجمان ہونے کی چھاپ نہ لگے۔بھلا ایسے حساس اور خود دار لوگ کب گوارا کرتے ہیں کہ ان پر کسی ادارے کا ایجنٹ ہونے کا بدنماداغ لگے۔مرحوم حسن شادؔ حاذ کے اپنے دوستوں کے بارے میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں:
خوددار، زود رنج، کھرے اور زود حِس
مجھ کو بھی ہم جلیس الٰہی عجب ملے
حاذ میں گلگت کے تمام مسالک کے اہلِ قلم کی نمائندگی ہے۔ اس ادبی ادارے سے وابستہ ادیب و شاعر فروغِ ادب کے علاوہ قومی یکجہتی کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اپنی جاندارتحریروں اور کلام کے ذریعے اپنی قوم کی تر بیت کرنے، صحیح منزل کا تعین کرنے اور منزل کی جانب رہنمائی کرنے کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے قلمکار وں کا اندازِبیاں اور سوچنے کا انداز اگرچہ مختلف ہے۔لیکن اس میں اسلام اور پاکستان قدر مشترک کے طور پر موجود ہے۔اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ افکار و خیالات میں تضادات زندگی کا ایک خوبصورت حصہ ہیں، کیونکہ ماحول کی یکسانیت سے انسان اُکتا جاتا ہے اور ایک ہی قسم اور رنگ کے پھول اور ایک ہی خوشبو بھی اکثر اُکتاہٹ کا باعث بن جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مختلف رنگوں اور پھولوں سے حلقہءِ اربابِ ذوق کا گلدان آراستہ و پیراستہ ہے۔
ابتدائی دنوں میں مشاعرے گھروں سے شروع ہوئے۔شعراء باری باری اپنے گھر میں پڑھے لکھے اور ادب نواز قسم کے افراد کو مدعو کرکے مشاعر ے کا انعقاد کرتے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی آئی اور شعرا ء کا ذوق و شوق اور علا قائی حالات حاذ کے قیام کا باعث بنے۔حاذ کے قیام سے چند برس پہلے 15 اپریل 1984 ء کو ”شنا ادبی مرکہ“ کے نام سے ایک ادبی تنظیم قائم کی گئی۔ تاہم یہ تنظیم تا دیر فعال نہیں رہ سکی۔ البتہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس تنظیم نے مختصر عرصہ کے لئے ہی سہی مقامی قلم کاروں کو یکجا ہونے کا موقع فراہم کیا۔اس تنظیم کے بانی اراکین اور عہدیداروں میں مولوی راجی الرحمت نظرؔ صدر، فضل الرحمن عالمگیرؔ جنرل سیکرٹری، شیر باز علی خان برچہ پریس سیکریٹری، اخونزادہ حسین اکبر فنانس سیکر یٹری اور مجلس عاملہ کے اراکین میں محمد امین ضیاءؔ، گوہر علی گوہرؔ، عبدالخالق تاجؔ اور جمشید خان دکھیؔ کے نام شامل ہیں۔اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایک مجلہ کے اجراء کی کو شش بھی کی گئی لیکن حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ملی۔اس تنظیم کے اراکین کے بکھرنے کے ایک برس بعد ہی 31 دسمبر1985 ء کو مشہور ادبی و سماجی شخصیت غلام محمد بیگ مرحوم کی کاوشوں کی بدولت قراقرم رائٹرز فورم وجود میں آیا۔بیشتر ادباء و شعراء ایک بار پھر مل بیٹھے اور ایک عرصے تک صحت مند ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس فورم کی سرگرمیاں بھی ماند پڑگئیں اوربالآخر حاذ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ وہ ادبی تنظیم ہے جس میں علاقے کی ادبی قد آور شخصیات شامل ہیں۔علم و ادب کے فروغ کے علاوہ گلگت کے مخصوص حالات میں اس تنظیم کے کارکنوں نے علاقے سے فرقہ واریت کے برعکس بھائی چارہ کی ٖفضا قائم کرنے کے سلسلے میں جو گر انقدر خدمات انجام دی ہیں، ان کا ہر شخص معترف ہے۔ اس تنظیم کے احباب اپنے ادبی فن پاروں اور اشعار کے ذریعے استحصالی قوتوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور ہر مشکل گھڑی میں قوم کو متحد رکھنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کیں۔ گلگت میں ادبی محافل، مجالس میلاد، محافل مسالمہ اور امن کنونشن کے انعقاد کا سلسلہ اسی تنظیم سے قائم ہے۔اسی تنظیم نے 1997 ء میں پہلی بار گلگت بلتستان کے نمائندہ شعراء و ادباء کو گلگت مدعو کر کے ان کے درمیان جو ادبی رشتہ مستحکم کیا۔وہ آج بھی قائم ہے۔اس کے بعد سالانہ تواتر سے ان کے درمیان ادبی وفود کا تبادلہ ہورہا ہے۔ 2005-06 ء میں چترال کے شعراء بھی حلقہ ارباب ذوق کی دعوت پر گلگت آئے اور ادبی رشتوں کو مزید استوار کرنے کی ضرورت سب نے محسوس کی۔انشاء اللہ مستقبل میں یہ رشتے مزید مستحکم ہونگے۔گلگت بلتستان کی سر زمین ادبی لحاظ سے بڑی زرخیز ہے۔اس نے شنا ریجن میں پیر غلام النصیر المعروف با با چلاسی،وزیر اشرف(علیگ) مرحوم، مظفر علی ظفرؔ، حاجی غلام رسول،جے کے ایل ایف کے سپریم لیڈرامان اللہ خان، فضل الرحمن عالمگیرؔ، مولانا عبدالباقی مرحوم، عبدالحمید خاورؔ مرحوم، پروفیسر منظوم علی، سید یحییٰ شاہ، ڈاکٹرثابت رحیم، ڈاکٹر غلام عباس، شیرباز علی برچہ اور پروفیسر عثمان علی جیسے ممتاز قلمکار پیدا کیے۔ جبکہ نوجوان قلمکاروں کی فہرست اور بھی طویل ہے۔
حلقہ ارباب ذوق (حاذ) گلگت کی ادبی محفلوں میں شرکت کی بدولت دیامر رائٹرز فورم کے سابق صدر عنایت اُللہ خان شمالی کو دیامر رائٹرز فورم کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کی تحریک ملی۔اور انجمن فکر و سخن نگر کے بانی صدراسماعیل ناشادکی شعری تشنگی ابتدائی طور پراسی حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم نے دور کی۔بلآ خر ان کا اور ان کے احباب کاشعری جنون انجمنِ فکر و سخن نگر کے قیام پر منتج ہوا۔ ضلع غذر میں بھی حلقہءِ اربابِ ذوق کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ جسے فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ اُمید قوی ہے کہ مستقبلِ قریب میں اس سلسلے میں مزید پیشرفت ہوگی۔اس تنظیم کی کوششوں اور پاکیزہ محافل کے انعقاد کی وجہ سے شعراء کی شہرت وتوقیر میں اضافہ ہوا ہے۔ایک دور وہ تھا جب شعراء کو کوئی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا۔آج صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی محفل خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی،سماجی ہو یا ثقافتی،شعراء کی شرکت کے بغیر ادھوری ہو تی ہے۔لہٰذا یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ شعرائے کرام کو معاشرے میں ان کا جائز اور باعزت مقام دلانے کاتمام تر سہراحلقہ اربا ب ذوق گلگت کو جاتا ہے۔حاذ ایک غیر سرکاری اور غیر سیاسی تنظیم ہے اور اپنے اہداف کے تعین اور عمل درآمد کرنے میں خود مختار ہے۔
ابتدا ء میں حلقہءِ اربابِ ذوق کو محافل اورمشاعروں میں ایسے باذوق سامعین ملے۔جنہوں نے ہمیشہ شعرائے کرام کی پذیرائی کی اور قدم قدم پر اِن کے حوصلے بلند رکھے۔اِن میں جناب عبدالواحد گہر، فقیر محمد خان، سلطان ولی، شیر باز علی برچہ،پروفیسر غلام عباس،
سعید احمد خان، غلام محمد بیگ، میر عبدلخالق، پروفیسر عثمان علی،اکرم خان، مالک شاہ، ماسٹر محمد یوسف شگری، سید حسین اصغر، حاجی محمد ایوب، اخونزادہ حسین اکبر، جہانگیر، محمد انور، اشرف علی نقشبندی، حاجی محمد عیسٰی، زمان علی،راجہ ریاض، خالدطور، اصغر علی قوم، میجر ریٹائرڈ حسین شاہ وغیرہ کے نام شامل ہیں۔کریم جان فوٹو گرافر، سعادت علی مجاہد، غلام قادر ہُنزائی، ایمان شاہ، سعید حسن، اقبال عاصی، شیر محمد،جان عالم کمپوزر، ارمان اُللہ ویڈیو گرافر، نیشنل میوزک سینٹر کے سخی احمد جان اور علی احمد جان وغیرہ کی پیشہ ورانہ خدمات ہمیشہ حاذ کو حاصل رہیں جبکہ حلقے کی سر گرمیوں میں کو اُجاگر کرنے اور لوگوں تک پہنچانے میں مقامی ہفت زوزہ اخبارات بالخوص ہفتہ زوزہ سیاچن بعدازاں کے ٹو، نقارہ، وادی، اذان، صدائے گلگت اور دیگر اخبارات نے نہایت ہی اہم کردار ادا کیا۔ اِن تمام احباب اور اداروں کے تعاون سے 1987- 88 ء میں لگایا ہوا حاذ کا پوداایک تناور رخت بن گیا ہے۔جس کے سائے سے شائقین شعرو ادب آج بھر پور استفادہ کر رہے ہیں۔
بآں گروہ کہ اَز ساغرِ وفا مستند
سلامِ ما برسانید ہر کُجا ہستند